کوئٹہ (نیوز ڈیسک) – تحریک انصاف بلوچستان کے رہنما اور این اے-253 کے انتخابی امیدوار صدام خان ترین کو مبینہ طور پر انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ان کے گھر سے زبردستی اٹھا لیا۔ واقعے کے بعد سے صدام خان ترین کا کوئی رابطہ نہیں ہو سکا، جبکہ ان کے خاندان اور سیاسی حلقوں نے اسے “جبری گمشدگی” قرار دیتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، گزشتہ رات کوئٹہ کے علاقے میں نامعلوم افراد نے مسلح ہو کر صدام خان ترین کے گھر میں دھاوا بول دیا اور انہیں بغیر کسی قانونی کارروائی کے اپنے ساتھ لے گئے۔ خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ اغوا کاروں نے خود کو انٹیلیجنس ایجنسی کا بتایا، لیکن کسی عدالتی وارنٹ یا گرفتاری کے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔
سیاسی و سماجی ردعمل
تحریک انصاف بلوچستان اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اس واقعے کو سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔ پارٹی ترجمان نے کہا کہ “صدام خان ترین این اے-253 کے حقیقی فاتح تھے، لیکن انہیں دھوکے سے انتخابی میدان سے ہٹا دیا گیا۔ اب انہیں اغوا کر کے ان کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔”
بلوچستان کے نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں نے اس واقعے کو “1971 جیسے مظالم کی یاد دلاتے ہوئے” کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “مافیاز” نے بلوچستان میں نوجوانوں کے دلوں میں مزید نفرت بھر دی ہے، اور اگر اس طرح کے اقدامات جاری رہے تو ملک کے اتحاد کے لیے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
انسانی حقوق تنظیموں کی مذمت
انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے صدام خان ترین کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئے فوری طور پر انہیں عدالت کے سامنے پیش کرنے یا رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “جبری گمشدگیوں کا یہ سلسلہ بلوچستان میں مسلسل جاری ہے، جو نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ ملک کے استحکام کے لیے بھی خطرناک ہے۔”
حکومت اور اداروں کی خاموشی
اب تک حکومت یا کسی سرکاری ادارے نے اس واقعے پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔ تاہم، تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں نے سپریم کورٹ سے فوری طور پر اس معاملے میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تنبیہ: “ہوش کے ناخن لیں!”
سیاسی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس طرح کے واقعات روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک میں امن و استحکام کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “1971 کی غلطیوں سے سبق نہ لینے کی روش ایک بار پھر تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور ادارے ہوش کے ناخن لیں اور صدام خان ترین سمیت تمام جبری گمشدہ افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔”
تجزیہ:
صدام خان ترین کا اغوا بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے ایک اور تاریک باب کا اضافہ ہے۔ اگر اس معاملے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ صورتحال مزید کشیدگی اور عدم اعتماد کو جنم دے سکتی ہے۔