علامہ محمد اقبال مشرق کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ شاعر، فلسفی، قانون دان اور مفکر کی حیثیت سے انہوں نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو نیا شعور دیا بلکہ پوری اسلامی دنیا کو ایک نئی فکری اور روحانی تحریک عطا کی۔ ان کا کلام صرف شعر و ادب تک محدود نہیں، بلکہ ایک ایسی بیداری کی دعوت ہے جو انسان کو اس کے حقیقی مقام سے روشناس کراتی ہے۔ اقبال کو “مشرق کا بلند ترین ستارہ” کہنا کوئی مبالغہ نہیں، کیونکہ ان کی فکر اور شاعری نے لاکھوں دلوں کو متاثر کیا اور آج بھی ان کا پیغام زمانے کی رہنمائی کر رہا ہے۔
فکری عظمت: اقبال کا فلسفہ خودی
علامہ اقبال کی سب سے بڑی ا ٓئیڈیالوجی ان کا فلسفۂ خودی ہے، جس کے ذریعے انہوں نے انسان کو اس کی حقیقی طاقت سے آگاہ کیا۔ ان کے نزدیک “خودی” صرف انا نہیں، بلکہ یہ انسان کے اندر موجود اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ وہ قوت ہے جو اسے دنیا میں نمایاں مقام دیتی ہے۔
اقبال کا فلسفہ خودی محض ایک نظریہ نہیں بلکہ زندگی بدل دینے والا ایک عملی نظام ہے۔ انہوں نے انسان کو یہ باور کرایا کہ وہ مٹی کا بے جان پُتلا نہیں بلکہ خدا کی سب سے عظیم تخلیق ہے۔
“خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے“
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن“
یہ فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ:
- ہماری تقدیر ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے
- اللہ نے ہر انسان میں لامحدود صلاحیتیں رکھی ہیں
- کامیابی کا راز اپنی ذات کو پہچاننے میں ہے
یہ فلسفہ صرف نظریاتی نہیں، بلکہ عملی زندگی میں بھی انسان کو حوصلہ دیتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور کبھی بھی مایوسی کا شکار نہ ہو۔
شاعری میں انقلاب: پیغامِ امید و عمل
اقبال کی شاعری محض الفاظ کا حسن نہیں، بلکہ ایک زندہ تحریک ہے۔ انہوں نے اپنے کلام کے ذریعے نوجوانوں کو خواب دیکھنے نہیں، بلکہ انہیں پورا کرنے کی ترغیب دی۔ “جوانوں سے خطاب” ان کی شاعری کا ایک اہم حصہ ہے، جہاں وہ کہتے ہیں:
“تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں“
ان کے اشعار میں جہاں ایک طرف روحانی بلندی ہے، وہیں دوسری طرف قومی و ملی بیداری کا پیغام بھی موجود ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نکالنے اور اپنی منزل خود متعین کرنے کی تعلیم دی۔
اقبال کے انقلابی اشعار جو نوجوانوں کو جگاتے ہیں
اقبال کی شاعری میں ایک خاص قسم کی روحانی بجلی ہے جو پڑھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے:
عمل کی ترغیب:
“عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے“
نوجوانوں کے لیے پیغام:
“ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں“
حریت کی روح:
“مسلماں کو مسلماں کر دیا تو نے
تجھے اس قوم نے پالا ہے غلامی میں“
خدا سے رشتہ:
“یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن“
سیاسی بصیرت: پاکستان کا نظریہ
علامہ اقبال صرف ایک شاعر ہی نہیں، بلکہ ایک دوراندیش سیاسی مفکر بھی تھے۔ انہوں نے 1930 میں الہ آباد کے خطبے میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا، جو بعد میں پاکستان کی شکل میں عملی جامہ پہنا۔ ان کا یہ نظریہ محض جغرافیائی تقسیم نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی اسلامی ریاست کا خواب تھا جہاں مسلمان اپنے دینی و تہذیبی اقدار کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
عالمی سطح پر اثرات
اقبال کی فکر صرف برصغیر تک محدود نہیں رہی، بلکہ پوری اسلامی دنیا پر ان کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ترکی کے مشہور شاعر اور مفکر محمد عاکف ارصوی اور ایران کے فلسفی شریعتی جیسے لوگوں نے اقبال سے متاثر ہو کر اپنی تحریروں میں ان کے خیالات کو آگے بڑھایا۔ آج بھی دنیا بھر کے دانشور اور محققین اقبال کے فلسفے پر کام کر رہے ہیں۔
اقبال آج کے دور میں
اگرچہ علامہ اقبال ہم میں موجود نہیں، لیکن ان کا پیغام آج بھی اسی طرح زندہ ہے۔ موجودہ دور میں جب مسلمان دنیا مختلف چیلنجز کا شکار ہے، اقبال کا فلسفۂ خودی اور عمل ہمیں نئی راہیں دکھاتا ہے۔ ان کی شاعری اور فکر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہماری ترقی کا راز اپنی تاریخ، تہذیب اور ایمان سے وابستگی میں پوشیدہ ہے۔
علامہ اقبال مشرق کا وہ عظیم ستارہ ہیں جس کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوگی۔ انہوں نے اپنی شاعری، فلسفے اور سیاسی بصیرت سے نہ صرف ایک قوم کو جگایا، بلکہ پوری انسانیت کو بلند مقام تک پہنچنے کا راستہ دکھایا۔ ان کا یہ شعر ان کے پیغام کا خلاصہ پیش کرتا ہے:
“یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن“
ہم اقبال سے کیا سیکھیں؟
- اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھیں
- مشکلات سے گھبرانے کے بجائے انہیں چیلنج سمجھیں
- علم حاصل کریں مگر اپنی اقدار نہ بھولیں
- اپنی نوجوان نسل کو اقبال کے پیغام سے روشناس کرائیں
اقبال کا حقیقی خراج تحسین
اقبال کو صرف یوم اقبال منا کر یا ان کے اشعار پڑھ کر ہم ان کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ ان کا حقیقی خراج تحسین یہ ہے کہ:
- ہم ان کے فلسفہ خودی کو سمجھیں
- ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں
- اپنی نسلوں کو ان کی فکر سے روشناس کرائیں
“زندہ رہنے کے لیے فقط اک ہی صورت ہے
مرنے والوں کی طرح جینا ہو تو چھوڑ دے“
علامہ اقبال مشرق کا وہ آفتاب ہیں جس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑے گی۔ آئیے ہم عہد کریں کہ اقبال کے پیغام کو صرف کتابوں تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ اسے اپنی زندگیوں میں اتاریں گے۔
اقبال کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، کیونکہ وہ صرف ایک شاعر نہیں، بلکہ ایک ایسے رہنما ہیں جن کی فکر ہر دور میں انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
پڑھتے رہیے، سیکھتے رہیے، بڑھتے رہیے!
✍️ تحریر: وائس آف پاکستان ٹیم