بھارت جنگی جارحیت کے بعد آبی جارحیت پر اتر آیا

water_akhbar

اسلام آباد : بھارت نے دریائے چناب کو بیاس اور راوی دریاؤں سے جوڑنے کے منصوبے پر تیزی سے کام شروع کر دیا ہے، جس سے پاکستان کو پانی کی فراہمی شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ اقدام بھارت کے طویل المدتی منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو دریائی وسائل سے محروم کرنا ہے۔

ماہرین آبیات کا انتباہ
پاکستان کے معروف ماہر آبی وسائل، انجینئر ارشد ایچ عباسی نے اپنی تازہ رپورٹ “چناب کے چوراہے پر: استحصال کی بجائے تحفظ کی اپیل” میں خبردار کیا ہے کہ بھارت دریائے چناب کو بیاس سے ملانے کے لیے جسپہ ڈیم کے ذریعے کام کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، بھارت نے اس منصوبے کے لیے 2011-2012 کے بجٹ میں فنڈز مختص کیے تھے، جس کے تحت 23 کلومیٹر طویل کنکریٹ سرنگ تعمیر کی جا رہی ہے۔ یہ سرنگ چناب کو سولنگ نالے (جو راوی میں گرتا ہے) سے ملا دے گی، جس سے پانی کو رنجیت ساگر ڈیم کی طرف موڑا جا سکے گا۔

دریائے چناب کو لاحق خطرات
دریائے چناب، جسے “چاند کا دریا” بھی کہا جاتا ہے، ہماچل پردیش میں صرف 130 کلومیٹر کے رقبے پر بہتا ہے، جو اس کے کل 61,000 مربع کلومیٹر کے دریائی حوض کا محض 7,500 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔ تاہم، ہماچل پردیش میں 49 پن بجلی منصوبے زیر تعمیر ہیں، جو اس دریا کے قدرتی بہاؤ کو شدید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

بھارت کی سرنگ سازی کی مہارت
بھارت پہلے ہی 9.7 کلومیٹر طویل باگرو ناولے سرنگ مکمل کر چکا ہے، جو ملک کی سب سے بڑی آبی سرنگ ہے۔ اس کے علاوہ، 12,000 فٹ بلند پہاڑوں میں 14.2 کلومیٹر طویل زوجی لا سرنگ بھی تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔ انجینئر عباسی کے مطابق، یہ ٹیکنالوجی چناب کو بیاس اور راوی سے جوڑنے کے لیے استعمال ہو سکتی ہے، جس سے پانی کو رنجیت ساگر ڈیم (2001 میں راوی پر تعمیر) کی طرف موڑ کر پاکستان کے حصے کا پانی روکا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی فوری کارروائی کی ضرورت
انجینئر عباسی نے پاکستانی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر فوری طور پر بین الاقوامی فورمز پر آواز اٹھائے اور بھارت کے ان منصوبوں کو روکنے کے لیے سفارتی اور قانونی اقدامات کرے۔ اگر بھارت یہ منصوبہ مکمل کر لیتا ہے، تو پاکستان کے لیے زراعت اور پینے کے پانی کا بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔

نتیجہ
صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، اور پاکستان کو اپنے آبی حقوق کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس معاملے پر توجہ نہ دی گئی، تو مستقبل میں پاکستان کو شدید آبی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *