سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا، جس کے بعد سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، اور یہ نشستیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں کو منتقل ہوں گی۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 12 جولائی کا اپنا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نظرثانی کی درخواستیں قبول کیں اور 7 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کو 80 ارکان کی درخواستیں دوبارہ سننے کی ہدایت دی گئی۔
بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی، جبکہ جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی نے بھی اکثریتی فیصلے میں ساتھ دیا۔
اختلافی رائے میں جسٹس جمال مندوخیل نے 39 نشستوں تک اپنی رائے برقرار رکھی، جبکہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے مشروط طور پر نظرثانی درخواستیں قبول کیں۔
ابتدا میں اس کیس کی سماعت کے لیے 13 رکنی فل کورٹ بنایا گیا تھا، جس میں سے جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی بعد میں بینچ سے علیحدہ ہو گئے۔

مخصوص نشستوں کا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب 8 فروری 2024 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے آزاد امیدواروں کو میدان میں اتارا، جو بعد میں سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئے اور مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا۔ تاہم الیکشن کمیشن نے ان کی درخواست مسترد کر دی، جسے پشاور ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر کے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیا تھا، لیکن اس پر ن لیگ، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کیں، جن پر 17 سماعتوں کے بعد آج فیصلہ سنایا گیا۔
یہ فیصلہ جنگ زدہ سیاسی ماحول میں آئندہ سیاسی صف بندیوں پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔