واشنگٹن/تہران/یروشلم (ویب ڈیسک) —
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر متوقع اعلان کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔ ایران نے اسرائیل پر میزائل حملوں کے بعد جنگ بندی کے نفاذ کا اعلان کیا جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی اس تجویز کو قبول کر لیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے تازہ بیان میں واضح کیا کہ فریقین میں سے کوئی بھی جنگ بندی کی خلاف ورزی نہ کرے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا: “مبارک ہو دنیا! ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ آئندہ چھ گھنٹوں کے دوران دونوں ممالک اپنی تمام تر عسکری کارروائیاں روک دیں گے۔
ٹرمپ کے مطابق معاہدے کے تحت ایران فوری طور پر اپنے فوجی آپریشنز بند کرے گا جبکہ اسرائیل 12 گھنٹے بعد باضابطہ طور پر حملے روک دے گا۔ 24 گھنٹے مکمل ہونے پر اس جنگ بندی کو باضابطہ طور پر 12 روزہ جنگ کے خاتمے کے طور پر تسلیم کر لیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ دونوں فریقین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس عبوری مدت میں انتہائی احتیاط اور صبر کا مظاہرہ کریں تاکہ کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی سے بچا جا سکے۔ انہوں نے اس پیش رفت کو مشرق وسطیٰ میں بڑی تباہی سے بچاؤ قرار دیا اور کہا کہ یہ جنگ کئی برس جاری رہ سکتی تھی مگر اب دنیا ایک بڑے سانحے سے محفوظ رہی ہے۔
ٹرمپ نے ایران، اسرائیل، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر ممالک کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “خدا ہم سب پر رحم کرے۔”

جنگ بندی کے پس منظر میں قطر کی خفیہ سفارت کاری کا انکشاف
امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ اس جنگ بندی کے حصول میں قطر نے اہم سفارتی کردار ادا کیا۔ ذرائع کے مطابق قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے براہ راست ایران اور امریکہ کے درمیان رابطے بحال کروائے۔
حکام کے مطابق قطر کی ثالثی اس وقت فیصلہ کن ثابت ہوئی جب ایران نے خطے میں امریکی اڈوں پر حملے کیے تھے، جن میں قطر میں واقع العدید ایئر بیس بھی شامل ہے۔
تاہم ایران اور اسرائیل کی حکومتوں نے سرکاری طور پر جنگ بندی کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ کا محتاط ردعمل
ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت روکتا ہے تو ایران بھی مزید عسکری اقدامات کا ارادہ نہیں رکھتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس کشیدگی کا آغاز اسرائیل نے کیا تھا، ایران نے نہیں۔
یاد رہے کہ ایران نے امریکی حملوں کے جواب میں قطر میں موجود العدید ایئر بیس پر چھ میزائل داغے تھے اور عراق میں امریکی فوجی اڈے کو بھی نشانہ بنایا تھا۔
دوحہ میں مختلف دھماکوں اور آگ کے شعلے دیکھے گئے، جس کے بعد قطر نے اپنی فضائی حدود غیر معینہ مدت تک بند کرنے کا اعلان کیا اور تعلیمی اداروں میں تعطیل دے دی۔

امریکہ اور اسرائیل کے دعوے
امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکی طیاروں نے ایران کے تین اہم جوہری مراکز — فردو، نطنز اور اصفہان — کو نشانہ بنایا اور فردو کے نیوکلیئر پلانٹ کی مکمل تباہی کا دعویٰ کیا ہے۔
دوسری جانب ایران کے تازہ حملوں میں اسرائیل کا ایک پاور پلانٹ تباہ اور کئی علاقے تاریکی میں ڈوب گئے جبکہ اسرائیل نے ایران کے 6 ہوائی اڈے اور متعدد جنگی طیارے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس تاریخی جنگ بندی کے باوجود خطے میں کشیدگی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اور کسی بھی وقت صورتحال نیا رخ اختیار کر سکتی ہے۔