اسلامی تاریخ کے تابندہ ستاروں میں اہل بیت علیہم السلام کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ان ہی ہستیوں میں ایک درخشاں نام حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کا ہے، جنہیں ’’شاہ خراسان‘‘ کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ آٹھویں امام، علم و حکمت کے مرکز، اور روحانیت کے چراغ تھے۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو دین اسلام کی سربلندی، اخلاقِ فاضلہ کی تعلیم اور عدل و انصاف کے قیام کی علامت ہے۔
نسب اور پیدائش
امام علی رضا علیہ السلام کا اسمِ گرامی “علی” اور کنیت “ابوالحسن” ہے۔ آپ کے والد گرامی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور والدہ نجمہ خاتون تھیں، جنہیں طاہرہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت 11 ذوالقعدہ 148 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
علم و فضیلت
امام رضا علیہ السلام علم و دانش میں اس قدر بلند مقام پر فائز تھے کہ آپ کو “عالمِ آل محمدؐ” کے لقب سے یاد کیا گیا۔ آپ کا علم صرف دینی مسائل تک محدود نہ تھا بلکہ طب، فلسفہ، منطق، نجوم اور مختلف مذاہب و مکاتب فکر سے بھی آپ بخوبی واقف تھے۔ آپ کے علمی مناظرات، خصوصاً “مجلس مامون” میں علما و مفکرین سے کیے گئے سوالات اور ان کے جوابات، علم و دانش کی بلندیوں کا مظہر ہیں۔
سیاسی حالات اور ولایت عہدی
عباسی خلفاء کے دور میں اہل بیت کو ہمیشہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ جب مامون الرشید نے خلافت سنبھالی تو اس نے اہل بیت کے بڑھتے اثر و رسوخ کو روکنے اور بغاوتوں کو دبانے کے لیے امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان بلایا۔ آپ نے ابتدا میں مامون کی طرف سے پیش کی گئی ولی عہدی کو قبول کرنے سے انکار کیا، لیکن جب مجبور کیا گیا تو شرط رکھی کہ وہ حکومت کے کسی بھی عملی کام میں حصہ نہیں لیں گے۔ امام کا یہ فیصلہ سیاسی لحاظ سے نہایت دانشمندانہ تھا جس نے عوام کے دلوں میں اہل بیت کی محبت مزید راسخ کر دی۔
امام کی خراسان میں موجودگی اور اثرات
جب امام رضا علیہ السلام کو خراسان لایا گیا تو نیشاپور میں ہزاروں کا اجتماع ہوا۔ وہاں امام نے معروف حدیث “سلسلہ الذہب” بیان فرمائی:
“کلمة لا إله إلا الله حصني، فمن دخل حصني أمن من عذابي، بشرطها وأنا من شروطها”
(ترجمہ: “کلمہ لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے، جو اس میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہا، لیکن شرط کے ساتھ، اور میں ان شرائط میں سے ہوں”)۔
یہ حدیث اہل بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
شہادت
مامون کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ امام کی موجودگی اس کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ اس لیے اس نے آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا۔ امام رضا علیہ السلام کی شہادت صفر 203 ہجری میں طوس (موجودہ مشہد، ایران) میں ہوئی۔ آپ کا روضہ آج بھی زائرین کے لیے مرکزِ عقیدت ہے، اور اہل ایمان اسے ’’حرمِ رضوی‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
اخلاقی تعلیمات
امام رضا علیہ السلام نہایت سادہ، منکسر المزاج، خوش اخلاق اور مہربان شخصیت کے مالک تھے۔ آپ غریبوں، یتیموں اور مظلوموں کے حامی تھے۔ آپ نے ہمیشہ انسانوں کو عقل، حلم، صبر، عدل، اور تقویٰ کی دعوت دی۔ آپ کا فرمان ہے:
“عقلِ انسان کی کمال نشانی یہ ہے کہ وہ خدا کی بندگی کرے اور اپنے اعمال میں اخلاص رکھے۔”
امام رضا علیہ السلام کا مقام و مرتبہ
امام رضا علیہ السلام کا روحانی و علمی مقام اس قدر بلند ہے کہ شیعہ سنی سب آپ کی عظمت کے قائل ہیں۔ آپ کی زیارت کو بے پناہ فضیلت حاصل ہے اور روایات میں اسے جنت کی ضمانت کہا گیا ہے۔
نتیجہ
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زندگی عدل، علم، محبت، اور صبر کی مثال ہے۔ آپ کی تعلیمات آج بھی امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ’’شاہ خراسان‘‘ کا لقب صرف ظاہری طور پر نہیں بلکہ معنوی طور پر بھی آپ کی سلطنتِ روحانیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کی حیات طیبہ ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا، علم کا فروغ دینا، اور اخلاقی اقدار کو اپنانا ہی حقیقی کامیابی ہے۔
تحریر: وائس آف پاکستان ٹیم