کابل: بی بی سی پشتو کی ایک رپورٹ کے مطابق، افغان طالبان حکومت کے نائب وزیر داخلہ اور سینئر عسکری رہنما ابراہیم صدر نے حال ہی میں انڈیا کا خفیہ دورہ کیا، جہاں انہوں نے انڈین حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔ یہ دورہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان پہلگام حملے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
ابراہیم صدر کون ہیں؟
ابراہیم صدر طالبان کی قیادت میں ایک اہم شخصیت ہیں اور انہیں ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ 1990 کی دہائی میں طالبان حکومت میں نائب وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں اور ہلمند صوبے میں طالبان کی فوجی مہمات کی قیادت کر چکے ہیں۔ ان پر ایران کے ساتھ تعلقات اور خودکش حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
انڈیا-طالبان تعلقات میں بہتری؟
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے انڈیا نے کابل میں اپنا سفارت خانہ مکمل طور پر بحال نہیں کیا، لیکن حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک کے درمیان رابطے بڑھے ہیں۔ جنوری 2025 میں طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دبئی میں انڈیا کے نائب وزیر خارجہ وکرم مصری سے ملاقات کی تھی، جو 2021 کے بعد اعلیٰ سطحی مذاکرات کا پہلا موقع تھا۔
15 مئی کو انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی متقی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور پہلگام حملے کی مذمت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے افغان عوام کے ساتھ تعاون جاری رکھنے پر زور دیا۔
پاکستان-افغانستان تعلقات پر اثرات
طالبان کے 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) افغان سرزمین سے پاکستان میں حملے کر رہی ہے، جسے طالبان مسترد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، پاکستان کی طرف سے لاکھوں افغان مہاجرین کی بیدخلی نے بھی دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کیا ہے۔
انڈیا-افغان تجارت اور چابہار پورٹ
پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت بند ہونے سے افغانستان کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں، جو پہلے واہگہ بارڈر کے ذریعے انڈیا بھیجی جاتی تھیں۔ انڈیا اب ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیا سے تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
نتیجہ
ابراہیم صدر کا انڈیا کا دورہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ طالبان حکومت خطے میں اپنے تعلقات کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ انڈیا بھی افغانستان کے ساتھ محدود تعاون کو بحال کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تاہم، اس سے پاکستان کے مفادات پر کس حد تک اثر پڑے گا، یہ مستقبل کے حالات پر منحصر ہوگ