پاکستان کے ارتقاء میں شیعوں کا اجتماعی کردار

Shia and Pakistan

از قلم:عون عباس

خدا وند متعال نے اس کائنات  میں چند اٹل اصول صادر فرماۓ ہیں اور خدا نے ان اصولوں کو اپنی سنتیں، اپنے قانون قرار دیا ہے اور قرآن مجید میں ان سنتوں کے بارے ان قانون کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے 

 *کہ آپ ان سنتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔*

*وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا*     

*اللہ کی سنت  میں آپ کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے*

ان اٹل اور ناقابل تغییر قانون،سنتوں  میں سے ایک سنت یہ ہے کہ 

*إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ*     

*اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے* 

بقول مرشد من شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رح

*خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی* 

*نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا*

جب پاکستان بنا ہی نہیں تھا اور بر صغیر کی مسلم امت قعر مذلت میں گھری ہوئی تھی ہر طرف ظلم و ستم کی گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں ایک طرف دنیا کا بدترین استعمار برطانیہ کا تسلط اور دوسری طرف ہندو کے ظلم و ستم کا غالبہ تھا اور دور دور تک امید کی کرن نظر نہیں آ رہی تھی ایسے میں شعیان علی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ملکر  گھنگھور گھٹاؤں کے پیچھے سے خور شید امید اپنی تابانی سے  پردہ ظلمت کو تارتار کر دیتے ہیں۔

یعنی کربلا کے ماننے والے خدا کے اس قانون اور سنت سے الہام لیتے ہوئے قیام کرتے ہیں اورقائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں قوم کی نجات کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ اور ہر قسم کی مشکل کو پاؤں تلے کچلنے کا ہر دشمن کو زیر کرنے کا مصمم عزم کر لیتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے کربلا کے مکتب سے الہام لیا ہو مکتب کربلا سے درس تربیت لیا ہو اور حسین ابن علی علیہ السلام کو اپنا پیشوا اور مقتدی مانا ہو تو کیسے ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کی اس کسمپرسی مایوسی، دکھ بھری حالت پر خاموشی اختیار کر لیں۔ کیونکہ  امام حسین  علیہ السلام  نے یذید کی بیعت کے جواب میں فر مایا تھا کہ 

*لا والله لا أعطيهم بيدى إعطاء الذليل و لا أفرّ فرار العبيد*

*نه خدا کی قسم! ذليل و خوار شخص کی طرح آپ کے ہاتھ پر بيعت نہیں کروں گا اور نہ ہی غلاموں کی طرح راہ فرار اختیار کروں گا*

تاریخ گواہ ہے کہ  برصغیر کے مسلمانوں کو یہ آزاد مملکت کسی نے طشتری میں ڈش میں رکھ کر پیش نہیں کی تھی بلکہ  اس کے حصول کی خاطر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زیر قیادت ایک عظیم الشان جدوجہد کی گئی تھی۔ اس جدوجہد کے دوران مسلمانوں نے انگریزحکومت کے جبر و تشدد اور ہندو اکثریت کی ریشہ دوانیوں کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا تھا۔ حصول منزل کی راہ میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں اور عصمت کا نذرانہ پیش کیاتھا۔ اس عظیم ہدف کے حصول کے لیے 50لاکھ لوگوں نے جام شہادت نوش کیا تب جا کر پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔

تحریک پاکستان ایک اہل بیت علیہ السلام  کے پیروکار کی سربراہی میں شروع ہوئی اور اس میں اہل بیت علیہ السلام  کے ماننے والوں نے کلیدی کردار اد کیا اور آج تک اپنا کردار ادا کرتے آ رہۓ ہیں اور ہر وقت لبوں پر یہی صدا ہے کہ۔

*پاکستان بچایا تھا پاکستان بچاۓ گۓ*

اور پاکستان کو دن دگنی رات چگنی ترقی دلوانے میں دن رات میدان میں ہیں اور اپنا تن من دھن پاکستان کے لیۓ قربان کیا تھا اور کر رہۓ ہیں۔

الحمداللہ قیام پاکستان کی تحریک میں حصہ لینے والی قوم لینے والا مکتب عصر حاضر میں  بھی وطن عزیزپاکستان کے استحکام ،سالمیت اوربقا کی جنگ لڑ رہا ہے ہمارے آباؤ اجداد نے قیام پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں تو آج ہم بھی استحکام پاکستان کے لیے ترقیِ پاکستان کے لیۓ قربانیاں دے رہے ہیں اور دیتے رہۓ گۓ۔

جو کل  وجود پاکستان کے مخالف تھے آج وہی بقاۓ پاکستان کی دشمنی پے ہیں اور یہ ان کی دشمنی اوج پر ہے۔

 اس وطن عزیز کے مدافعین،  غیور ملت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی دن رات کوشش کی جا رہی ہے۔ 

کبھی مساجد کو بم دھماکوں کی نظر کردیاجاتا ہے تو کبھی جلوسوں پرفائرنگ ہوتی ہے کبھی ذکر حسین کروانے والوں پے ایف آئ ار درج کی جاتی ہیں اور کبھی حقیقی محب وطنیوں کو جبری گمشدہ کیا جاتا ہے اور اس  مختلف واقعات میں سینکڑوں علمائے کرام، انجینئرز،ڈاکٹرز،پروفیسرز اور بے گناہ مومنین شہید کردئیے جاتے ہیں اسیر کر دیۓ جاتے ہیں اورابھی تک یہ دہشت گردی کا نہ رکنے والاسلسلہ جاری ہے لیکن ان غیور حسینیوں میں حب وطنی وطن کو ترقی دینے کا جذبہ کم نہیں ہوا بلکہ دن بدن رشد کر رہا ہے

*فقط اِس جرم میں کہلائے گنہ گار کہ ہم*

*بہر ناموسِ وطن، جامہ تن مانگتے ہیں*

*لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہیں نعرے، لیکن*

*ہم تو اے اہلِ وطن، دردِ وطن مانگتے ہیں*

(احمد ندیم قاسمی)

 ددراصل تشعیوں پر ظلم کرنے والے  افراد رشد پاکستان نہیں چاہتے لیکن ان دشمنانِ وطن قوتوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جوقوم  بوڑھے استعمار انگریز کے تسلط کو توڑ کر اسے اپنی سرزمین سے بھاگنے پر مجبور کر سکتی ہے اور نہرو جی ،پٹیل جی اور گاندھی جی جیسے مدبرین کے گھناؤنی سیاست خاکستر کر کے ایک علیحدہ مملکت حاصل کر سکتی ہے اور ہر طاغوتی طاقت کا مقابلہ بھی کر سکتی ہے۔ اور ہر دشمن وطن کی طاقت کے شرسے وطن عزیز کو محفوظ بھی  رکھ سکتی ہے۔  

کربلا کا ماننے والا ہر پاکستانی جوان دشمن کو للکار کر کہہ رہا ہے کہ

 اے وقت کے  یذید! تیرے پاس جتنی سلطنت ہے استعمال کرلے۔ 

اے وقت کے ابن زیاد! تیرے پاس جتنے لشکر ہیں بڑھا لے۔

اے وقت کے شمر ! تیرے پاس جتنے خنجر ہیں آزما لے ۔

اے وقت کے خولی! اپنے ترکش خالی کر لے۔ لیکن یاد رکھ 

*پاکستان بچایا تھا پاکستان بچاۓ گۓ*

*پاکستان کو مثل جنت بناۓ گۓ*

*پاکستان کو مرکز انسانیت بناۓ گۓ*

*پاکستان کو دن دگنی رات چگنی ترقی دۓ گۓ*

*کیونکہ ہم پاکستانی ہیں*

*بقول شاعر*

*ہمارا دیس ہے پاکستان ہم اس کی نشانی ہیں*

*ہم پاکستانی ہیں*

*ہمارے چہچوں سے کوئ آخر سرگراں کیوں ہو؟*

*کوئ ناشادماں کیوں ہو؟*

*یہ ہمارا باغ ہے ہم اس میں محوِ گلفشانی ہیں*

*کہ ہم پاکستانی ہیں*

*وطن کی خاک میں ملتا ہمارا* *دین و ایماں ہے*

*یہی مرنے کا ارماں ہے*

*شباب زندگانی یا خراب زندگانی ہیں*

*کہ ہم پاکستانی ہیں*

*عجم تا عرب ہے دھوم اپنی سخت کوشی کی*

*وفا سر فروشی کی*

*بہ ایں افسردگی بھی آب و رنگِ بزم فانی ہیں*

*کہ ہم پاکستانی ہیں*

*ہمیں کہتی ہے دنیا میکش میخانہ پاکستانی*

*گلِ گلخانہ پاکستانی*

*اسی اک کیف میں سر شار و محو نغمہ خوانی ہیں*۔

*کہ ہم پاکستانی ہیں*

*یہیں اپنے عروج و دائمی کی کوششیں کرنا*

*یہیں جینا یہیں مرنا*

*ہمیں ناکامیاں بھی اک طرح کی کامرانیاں ہیں*

*کہ ہم پاکستانی ہیں*

*کہاں کی فرقہ بندی اور جماعت سازیاں کیسی*

*یہ کثرت سازیاں کیسی*

*ہمیں پاکستانی کہو ہم ربطِ قومیت کے بانی ہیں*

*کہ ہم پاکستانی ہیں*

*ہم اپنی مادرِ پاکستان کے نغمے گائیں گۓ*

*اسے دلہن بنائیں گۓ*

*جوانی یہ ہماری اور ہم اس کی جوانی ہیں*

*کہ ہم پاکستانی ہیں۔*

اب ہم آج کے پاکستان کے ارتقاء میں تشیع کا کرادر پے ایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔

جس کا آغاز ایک مختصر پاکستان کا محل وقوع سے کرتے ہیں۔

*پاکستان کا محل وقوع*

پاکستان براعظم ایشیا کے جنوب میں واقع ایک ایسا ملک جس کا نام اسلامی جمہوریہ رکھا ہوا ہے اور  اس کی آبادی کا اکثر حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سنہ 1947ء کو پاکستان  آزاد ہوکر ہندوستان سے الگ ہوگیا تھا۔

پاکستان کا کل رقبہ 796٬095 مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں سے 6774 کلومیٹر بارڈر ہے جس کے شمال مغرب میں افغانستان، جنوب میں ایران، شمال مشرق میں چین، مشرق اور جنوب مشرق میں ہندوستان اور جنوب میں بحر ہند واقع ہے۔

پاکستان کی کل آبادی تئیس سے چوبیس کروڑ بتائ جاتی ہے اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان  دنیا کا چھٹا ملک شمار ہوتا ہے۔ پاکستان میں موجود اقوام میں پنجابی، سندھی، پٹھان،‌ بلوچ اور مہاجر ہیں۔ قومی زبان اردو ہے جبکہ انگریزی بھی زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، ہندکو اور براہویی، اس ملک کی رائج زبانوں میں سے ہیں۔

پاکستان کا نظام خالص اسلامی نہیں ہے بلکہ برطانیہ سے لیا ہوا ہے اور اس وقت پاکستان ایک  فیڈرل گورنمنٹ کے تحت چلتا ہے۔ جس میں چار صوبے اور گلگت بلتستان کا علاقہ بھی شامل ہے۔ ہر صوبے کی ایک صوبائی اسمبلی ہوتی ہے جس کے اراکین کو عوام انتخاب کرتی ہے۔ اور جیتنے والی پارٹی صوبائی حکومت تشکیل دیتی ہے۔ پاکستان میں قوانین قومی اسمبلی اور سینٹ اسمبلی سے پاس ہوتے ہیں۔ تمام اسمبلیوں کی مدت پانچ سال کی ہوتی ہے۔ پاکستان کے صدر مملکت کو قومی اسمبلی، سینٹ اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ووٹ دے کر پانچ سال کے عرصے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔ البتہ ملک میں اجرائی امور وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں فوج بھی اپنا کلید کردار ادا کر رہی ہوتی ہے

ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں 96% آبادی مسلمان ہے جس میں سے 77% اہل سنت اور 20٪ شیعہ ہیں۔ 1.75 ہندو 1.6 عیسائی 0.04 سیکھ بھی پاکستان میں بستے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اقلیتیں جیسے مجوسی، احمدی، بدھ مت اور قادیانی بھی پاکستان میں ہیں۔

اس ملک کے اکثر باشندے اہل سنت اور حنفی مسلک کے ہیں اور عقیدتی اعتبار سے تین گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں۔

بریلوی

دیوبندی

اہل حدیث

*قیام پاکستان میں شعیہ کا کردار*

یوں تو قیام پاکستان میں دوسرے مکاتب فکر کے برعکس اہل تشیع حضرات نے کسی تفریق کے بغیر قیام پاکستان میں حصہ لیا لیکن کچھ ایسی شخصیات کا تذکرہ ضروری ہے جن کے بغیر تاریخ پاکستان کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔

*قائد اعظم محمد علی جناح*

پاکستان کے بانی محمد علی جناح جنہیں قائد اعظم اور بابائے قوم کے لقب سے نوازا گیا آپ 25 دسمبر 1876ء کو وزیر مینشن، کراچی، سندھ میں پیدا ہوئے، جوکہ اُس وقت بمبئی کا حصہ تھے آپ کا پیدائشی نام ؒمحمد علی جناح  رکھا گیا۔ گوکہ ابتدائی اسکول کے ریکارڈ کے مطابق جناح کی تاریخِ پیدائش 8 اکتوبر 1875ء تھی لیکن موجودہ حکومتی ریکارڈ میں تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1876ء مذکور ہے۔ قائد اعظم کی دوسری شادی رتن بائی سے ہوئی جنہوں نے اپریل کے مہینے میں اسلام قبول کیا اور 19 اپریل کو انکا نکاح قائد اعظم سے ہوا جس میں ابو القاسم شریعتمدار نے وکالت کے فرائض انجام دیئے۔ قائد اعظم 11 ستمبر 1948 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ابتدائی طور پر آپ اسماعیلی مکتب پر عمل پیرا تھے لیکن بعد میں اثنا عشری مکتب کو قبول کیا ۔ اور پھر آخر عمر تک اسی پر کاربند رہے ۔نیز آپکی تجہیز و تکفین کے فرائض ہدایت اللہ عرف کلو نے اور نمازِ جنازہ شیعہ اثنا عشری عالم دین مولانا انیس الحسنین نے گورنر ہاؤس میں پڑھائی جس میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی اور دوسری مرتبہ عمومی طور پر حنفی فقہ کے مطابق ہوا۔ دفنانے کے بعد تلقین سید غلام علی وکیل احسن اکبر آبادی اور آغا حسین بلتستانی نے پڑھی۔

*راجہ محمود آباد*

بیسویں صدی میں انڈیا کی امیر ترین شخصیت راجہ امیر حسن خان آف ریاست محمود آباد(جسکی آمدنی کا اندازہ ماہانہ 40لاکھ روپیہ تھا) جو کہ بھر پور مالی مدد سے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئ ۔امیر حسن نے اپنی وصیت میں اپنے بیٹے امیر احمد کا سرپرست قائد اعظم کو قرار دیا کہ ان کی وفات کے بعد انکے فرزند امیر احمد خان راجہ بنے اور مسلم لیگ کے کم عمر ترین ممبر بنے۔ سن 1937میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ لکھنؤ اجلاس کا انتظام و خرچہ راجہ صاحب نے اس وقت اٹھایاجب مسلم لیگ کے دولتمند زمینداروں نے کانگریس کے خوف سے مالی معاونت سے ہاتھ روک لیا تھا۔مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اسکے صدر رہے نیز اسی فیڈریشن کی کاوشوں کی بدولت 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔مسلمانوں کے لیۓ ڈان، تنویر، حق، ہمدم اور دیگر نشریات کیلئے خطیر رقم دیتے رہۓ۔ نشرواشاعت کیلئے مسلم پریس لگوایا۔دس سال نجف کربلا بغداد رہنے کے بعد 1957 میں کراچی آ کر قیام کیا ۔1965کی جنگ میں بھارت کی حکومت نے راجہ صاحب کو ملک دشمن قرار دے کر تمام خاندانی املاک بحقِ سرکار ضبط کرلیں چونکہ راجہ صاحب ایک دشمن ملک ( پاکستان) کے شہری تھے۔ایوب کے دور میں وزارتوں کی پیشکش کو ٹھکرایا۔ 1968 میں لندن مسقر ہوئے اور تنخواہ کی ملازمت اختیار کی اور 1973 میں فوت ہوئے ۔انہیں مشہد حرم امام رضا ع  میں دفنایا گیا۔

مزید ان کے علاوہ قیام پاکستان میں بہت سے شعیہ راہنماؤں نے اپنا کردار ادا کیا جن میں سید امیر علی ،ڈی آغا خان۔مہا راجہ محمد علی محمد، کرنل سید عابد حسین ، تراب علی ،نواب محسن الملک،مرزا ابو الحسن اصفہانی۔

 علماء میں سے سید محمد دہلوی،حافظ کفایت حسین،سید ابن حسن جارچوی،مرزا یوسف حسین لکھنوی،نجم الحسن کراروی،شیخ جواد،علامہ رشید ترابی ایسی شخصیات ہیں جنکے نام لئے بغیر تشکیل پاکستان کی رو داد نا تمام ہے۔ اسی طرح خواتین میں سے فاطمۂ جناح مادر ملت، ملکۂ اوَدھ، صغریٰ بیگم،لیڈی نصرت ہارون اور لاہور کے سیکریٹریٹ کی عمارت پر پاکستان کا پرچم لہرانے والی شیر دل خاتون فاطمۂ صغریٰ کے اسما قابل ذکر ہیں۔

*پاکستان کے ارتقاء میں تشعیوں کا کردار*

ملک کی آبادی کا 20 سے کچھ زائد فیصد حصہ ہم  شیعوں پر مشتمل ہے جو پاکستان کے مختلف صوبوں، شہروں اور دیہاتوں میں آباد ہے۔ بہت سارے شیعہ سیاستدان اور اعلی عہدے دار  رہ چکے ہیں اور اب بھی ہیں۔ اس کے علاوہ شیعہ شناخت کے ساتھ  مختلف ادارے اور پارٹیاں کام کر رہی ہیں۔ دینی مدارس، مختلف علمی اور تربیتی ادارے بھی کام  کر رہے ہیں ہمارے بہت سارے شعیہ ڈاکٹر،انجنیئر،سائنس دان،آدیب،شاعر، اینکر،بزنس مین ہیں جو ارتقاء پاکستان میں اپنا کردار ادا کر رہۓ ہیں۔

تشعیوں نے قوم کو دینی احکامات اور قرآنی تعلیمات سے روشناس کروانے کیلئے ملک کے مختلف حصوں میں تبلیغی یا دینیات سینٹرز کا قیام عمل میں لایا ہے جو عام طور پر مدارس دینی سے ہی وابستہ ہوتے ہیں جبکہ کچھ مخصوص افراد کے تحت نظریاتی کام کرتے ہیں۔مدارس ہوں یا دینیات سینٹرز یہ تمام ادارے اپنے اخراجات مخیر حضرات کی مدد سے پورا کرتے ہوئے اپنی فعالیت جاری رکھتے ہیں۔ اور بہت سے تعلیمی ادارے دینی مدارس  يتيم خانے میڈیا سنٹر کام کر رہے ہیں اور مختلف نام پے مشتمل قوم کی خدمت کے لیۓ جوانوں کی ٹیمیں تگ و دو کر رہی ہیں جس میں  آئی ایس او (ISO)، اصغریہ سٹوڈنٹس اور جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (JSO) اور غیر تعلیمی اداروں میں آئی او (IO) اور تحریک بیداری امت مصطفی وغیرہ تنظیمیں موجود ہیں جو لمحہ با لمحہ خدمت پاکستان کے لیۓ میدان میں موجود ہیں اور خالص اسلام ناب محمدی کی ترویج کر رہۓ ہیں انسانیت کا سہارا ہیں ملت کے دکھوں اور دردوں کے ساتھی ہیں۔

*شکر کرنے کے لیۓ امیدِ فردا اب اٹھے*

*ایشیا میں جان آئ یعنی شعیہ اٹھے*

(اکبر آلہ آبادی)

اس کے علاوہ افکار اقبال،اتحاد بین المسلمین،شعور و آگاہی دینے میں نظریاتی اور بابصیرت طبقہ پیدا کرنے میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو زندہ کرنے میں یزید وقت امریکہ و اسرائیل کے پاکستان کے متعلق ناپاک منصوبوں کو روندنے میں انہیں للکارنے میں ملت کو ان شیطانوں سے بیزار کرانے میں غیر الہی سسٹم اور غیر الہی لیڈرز سے دستبرداری پر تشعیوں نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے اور کر رہۓ ہیں کیونکہ ان کے لبوں پے ہر وقت یہی صدا ہے کہ

بقول شاعر

 *چشم روشن پاکستان دل کی دھڑکن پاکستان*

*صحرا صحرا اس کی دھوم گلشن گلشن پاکستان*

تشعیوں اس ملت کو عروج تک پہنچانے کے لیۓ بیدار ہے اور تشعیوں اس ملت کے لیۓ اقبال کے خواب کی تعبیر ہے اقبال کے نطریات کا محافظ ہے دو قومی نطریۓ کا وفادار ہے۔

مزید تشعیوں نے پاکستان میں اسلامی تعلیمات جا بجا عزاداری حسین فضائل آل محمد کے زریعے زندہ کیا ہے کیونکہ تعلیمات اسلام کو زندہ  رکھنے کا مؤثر ترین ذریعہ مذہبی شخصیات کے ایام شہادت اور وفات منانا ہے ۔اسی کے تحت مذہب تشیع میں ہادیان برحق کے ایام منانا ان کے مذہبی شعار میں سے سمجھا جاتا ہے اور رسول خداؐ حضرت علی اور دیگر ہادیان برحق خاص طور پر حضرت امام حسین ؑ کے ایام شہادت کو نہایت پر جوش طریقے سے مناتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ عزاداری امام حسینؑ ہم تشیع کی پہچان ہے۔ حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے عنوان سے اول محرم سے دس محرم تک پورے پاکستان میں مجالس عزا نیاز و لنگر کا اہتمام ہوتا ہے۔

تشعیوں نے اس ملک میں امن و سکون کے لیۓ اس ملک کے ریاستی اداروں سے جڑ کے رہنے کے لیۓ اپنا بہت کلیدی کردار ادا کیا جبکہ مخالفین شعیہ نے  شیعہ کشی کو کہی بار دہرایا اور بے پناہ ظلم کیا تکفیریت کا ساتھ دے کر اس ملک کا امن بگاڑنے میں دن رات لگے رہۓ لیکن شعیہ نے ہر موقع پے اس وطن سے وفاداری کی مثال قائم کی۔

مزید شعیہ پر ظلم و ستم کے واقعات میں بم،دھماکے، ٹارگٹ کلنگ،شہداء، کی تعداد زخمیوں کی تعداد درج ذیل ہے۔

*2001میں3 تارگٹ کلنگ31 شہید اور 6 زخمی ہوۓ*

*2002میں 6 تارگٹ کلنگ 29 شہید اور47 زخمی ہوۓ*

*2003میں 1دھماکہ 4 تارگٹ کلنگ 83 شہید 68 زخمی ہوۓ*

*2004میں 4 بم دھماکے4 تارگٹ کلنگ 130 شہید اور 250 زخمی ہوۓ*

*2005میں 2 بم دھماکے 4ٹارگٹ کلنگ 91 شہید اور 122 زخمی ہوۓ*

*2006میں 2 بم دھماکے 3تارگٹ کلنگ 116 شہید اور لاتعداد زخمی ہوۓ*

*2007میں2 بم دھماکے  11تارگٹ کلنگ 442 شہید اور 423 زخمی ہوۓ*

*2008میں 6 بم دھماکے  10 تارگٹ کلنگ 416 شہید اور 453 زخمی ہوۓ*

*2009میں 8 بم دھماکے 27 تارگٹ کلنگ 381 شہید اور 593 زخمی ہوۓ*

*2010میں 7 بم دھماکے 16 تارگٹ کلنگ 322 شہید 639 زخمی ہوۓ*

*2011میں 2 بم دھماکے 33 تارگٹ کلنگ 203شہید 156 زخمی ہوۓ*

*2012میں 11بم دھماکے 310 تارگٹ کلنگ 630 شہید اور 616 زخمی ہوۓ*

*2013میں 20 بم دھماکے 283 تارگٹ کلنگ 1222 شہید اور 2256 زخمی ہوۓ*

*2014میں 7 بم دھماکے 262 تارگٹ کلنگ 361 شہید اور 275 زخمی ہوۓ*

*2015میں 11بم دھماکے 99 تارگٹ کلنگ 369 شہید اور 400 زخمی ہوۓ*

*2016میں 2 بم دھماکے 54 تارگٹ کلنگ 65شہید اور 207 زخمی ہوۓ*

*2017میں 4 بم دھماکے 34 تارگٹ کلنگ 308 شہید اور  133زخمی ہوۓ*

*2018 میں1 بم دھماکہ 28تارگٹ کلنگ 58 شہید اور  50 زخمی ہوۓ*

*2019میں 2 سے زائد بم دھماکے 15 سے زائد تارگٹ کلنگ 38 سے زائد شہید اور 9 سے زائد زخمی ہوۓ۔*

تقریباً اب تک چار ہزار سے زائد شیعہ قتل ہوئے جبکہ ہزاروں زخمی اور معذور ہو کر زندہ لاش بن چکے ہیں اور سینکڑوں بے گناہ اسیر ہیں اور  سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ کوئٹہ، کراچی اور ڈیرہ اسمغیل خان کے شعیہ ہیں۔

حوالہ

*(Shia Genocide Database*

 *(A detailed account of Shia killings in Pakistan”)*.

پھر اس کے بعد مسلسل آج تک شعیہ جبری گمشدگیاں اور تارگٹ کلنگ جاری ہیں۔

لیکن کمال ہے اس ملتِ تشیع کا سلام ہو ان پر سلام ہو ان با وفا وطن پر سلام ہو ان غیور اور حسینیوں پر کہ اس سب کچھ کے باوجود بھی کہیں بھی ملت تشعیوں پاکستان نے پاک فوج پر پولیس پر  رینجرز پر کسی ادارے کے اہلکاروں پر حملے نہیں کئے کبھی کسی ادارے کو نقصان نہیں پہنچایا کسی کو قتل نہیں کیا

ہاں اپنا پُرامن احتجاج ضرور کیا اور کرتے ہیں

 لیکن کبھی کسی کو ان احتجاجوں میں مارا نہیں کسی کے گھر اور دوکان کو نہیں جلایا  کسی کی عمارت پر پتھر نہیں برساۓ

 ہاں اپنا سینہ پیٹا عزاداری کی اپنے پیاروں کے لاشے لے کر کئی کئی دن ضرور بیٹھے رہے تاکہ اس بزدل دشمن کو بتا سکے گر ہمت ہے تو  سامنے سے وار کر اس لیۓ بیٹھے رہۓ کہ ان ریاستی اداروں کو متوجے کیا کہ ہمیں انصاف دلاؤ تم اس لیۓ بیٹھے رہۓ کہ تم ان تکفیروں کے خلاف قدم اٹھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

لیکن افسوس ہمیں پھر بھی نتیجہ اس کے برعکس ملتا ہے.

عزیزان اس وقت ملت پاکستان کا تشیع ایک خام میٹریل کے طور پر پاکستان میں پایا جاتا ہے اتنی وفاۓ وطن کے باوجود ہمارے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جاتا ہے سرکاری پرائیوٹ ادارے ملکی و غیر ملکی کمپنیاں سب تشیع کو ہاتھوں کا کھلونہ بنا کے استعمال کر رہی ہیں ہماری بنیادی حقوق تک سلب کیے جا رہۓ ہیں۔

*پاکستان میں ارتقاۓ تشیعوں کا حل*

سب سے پہلے تمام تشیعوں پاکستان کو ایک ہونا ہو گا۔

مزید تین پہلو ارتقاۓ تشعیوں کے درج ذیل ہیں۔

*1۔*

*نظریاتی و آئیڈیالوجیکل پہلو*

اس وقت پاکستان کی تمام مشکلات کا حل ایک جامعہ آئڈیالوجی میں ہے تشعیوں کے پاس ایک پاس وہ جامعہ اور مضبوط آئڈیالوجی موجود ہے لہذا اسی کے زیر سایہ آگے رشد کرۓ۔

*2*۔

*جمعیتی پہلو*

اس سے مراد جتنے ہمارے طبقات ہیں ڈاکٹر،انجنیئر،علماء،کسان،دھقان،طالب علم ہر طبقہ تناسب کے ساتھ بیدار ہو اس میں اس مکتب کی تہذیب،اخلاق سب رشد ہو۔

*3*۔

*اداراتی پہلو*

*تشعیوں مل کے علمی،تحقیقاتی،مراکز سازی،اقتصادی،ٹیکنیکی،اور تعمیراتی سب پہلو میں رشد کرۓ*

جس کے زریعے ہم دشمنان پاکستان دشمنان تشعیوں کو زیر کر سکتے ہیں۔

*والسلام*

*حوالہ جات*

 سایت world fact book

عالمی، ص۵۷

سید محسن حسینی کشمیری ،کحل الجواہر،ص103۔

 ویکیپیڈیا اردو؛ محمد علی جناح۔

 سید وصی خان تشکیل پاکستان میں شیعوں کا کردار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *