یکم ذوالحجہ: عقدِ نورین کا مبارک دن

یکم ذوالحجہ

اسلامی تاریخ میں یکم ذوالحجہ کا دن ایک عظیم اور نورانی واقعہ کا حامل ہے۔ یہ دن فقط ایک تاریخی دن نہیں، بلکہ دو عظیم انوار، دو پاکیزہ ترین ہستیوں کے مقدس رشتے کی یادگار ہے۔ یہی وہ دن ہے جب آسمانوں پر طے شدہ نکاح زمین پر منعقد ہوا۔ جب امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام اور دخترِ رسول، سیدہ النساء العالمین فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا عقد ہوا۔ ایک ایسا عقد جو فقط دو افراد کی زندگیوں کو نہیں جوڑتا بلکہ انسانیت کے لیے قیامت تک ایک نمونۂ کامل بن گیا۔

وہ جوڑے جن کی نظیر نہیں ملتی

اگر دنیا کے تمام نکاحوں کو ایک ترازو میں رکھ دیا جائے اور اس نکاح کو دوسرے پلڑے میں، تو پھر بھی اس عقدِ پاک کی فضیلت غالب آئے گی۔ کیونکہ اس رشتے کی بنیاد صرف محبت یا رسم و رواج نہیں بلکہ ایمان، طہارت، تقویٰ، ایثار اور اخلاص پر رکھی گئی تھی۔

یہ وہ رشتہ ہے جو وحی کے سائے میں، جبرائیل امین کی موجودگی میں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی براہِ راست سرپرستی میں انجام پایا۔ اور یہ کوئی معمولی نکاح نہ تھا، بلکہ وہ عقد تھا جس سے نسلِ امامت اور خانوادۂ عصمت و طہارت کی بنیاد رکھی گئی۔

سیرتِ طیبہ سے روشنی: عقد کی تمہید

جب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سنِ بلوغ کو پہنچیں تو مدینے کے بڑے بڑے صحابہ، جن میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، اور دیگر اصحاب شامل تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عقد کے لیے حاضر ہوئے۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر بار ایک ہی جواب دیا:

“امرُها إلى ربّها”
”ان کا معاملہ ان کے رب کے سپرد ہے“

یہ کوئی تاخیر نہ تھی، بلکہ اللہ کا ایک خاص ارادہ تھا۔ کیونکہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کسی عام انسان کی زوجیت کے لائق نہ تھیں۔ وہ صرف اُس کے لیے تھیں جو طہارت میں ان کا ہم پلہ ہو — اور وہ فقط علیؑ بن ابی طالب تھے۔

امیرالمومنین کا عزم اور شرم

مولا علی علیہ السلام کو معلوم تھا کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔ آپ نے کئی دن سوچا، اور آخر کار ہمت کر کے نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شرم سے نظریں جھکی ہوئی تھیں، الفاظ لبوں پر رک گئے۔ نبی کریمؐ نے تبسم فرمایا:

“علی، کیا کسی چیز کے لیے آئے ہو؟”
مولا نے جواب دیا: “جی، یا رسول اللہ، میں فاطمہؑ کا رشتہ طلب کرنے آیا ہوں۔”

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سوال کو سن کر خوشی کا اظہار فرمایا اور فرمایا:

“علی، مجھے اللہ نے پہلے ہی خبر دی ہے کہ وہ فاطمہ کو تمہارے عقد میں دینا چاہتا ہے۔”

سادگی، روحانیت اور معنویت سے لبریز نکاح

نکاح کی مجلس انتہائی سادہ مگر معنوی لحاظ سے انتہائی بلند مرتبہ تھی۔ رسول اکرمؐ نے خود خطبہ نکاح پڑھا۔ مولا علیؑ کے پاس مہر کے طور پر صرف ایک زرہ (جنگی لباس) تھی، جو انہوں نے بیچ دی اور اس سے مہر مقرر ہوا۔ سیدہ فاطمہؑ کا جہیز نہ سونے چاندی کا تھا، نہ محل و لباس کا۔ وہ چند ضروری اشیاء پر مشتمل تھا، مگر ان سب میں روحانیت، زہد اور سادگی کی جھلک تھی۔

یہ عقد، امت کے لیے پیغام ہے

یہ نکاح فقط ایک تقریب نہ تھی بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک عملی سبق تھا:

  • خلوص: نکاح میں دکھاوا نہیں بلکہ اخلاص ہونا چاہیے۔
  • سادگی: تقویٰ اور سادگی نکاح کی شان ہے، نمود و نمائش نہیں۔
  • کفویت: نکاح میں دینداری اور طہارت اہم معیار ہے، نہ کہ دنیاوی مال و دولت۔
  • الہی ارادہ: اگر اللہ کا ارادہ ہو، تو سب رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔

آج کے دن کی اہمیت

یکم ذوالحجہ کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں سیرتِ زہرا و علیؑ کو نافذ کریں، نکاح کو آسان بنائیں، توقعات کو کم کریں، اور اپنے بچوں کی شادیاں صرف اللہ کی رضا کی بنیاد پر طے کریں۔

آخری بات: ایک روشنی جو کبھی بجھی نہیں

یہ عقد وہ چراغ ہے جس کی روشنی قیامت تک چمکے گی۔ اسی جوڑے سے حسنین کریمینؑ پیدا ہوئے، اسی نسل سے نو امامؑ آئے، اور اسی عقدِ نور سے مہدی موعود عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ظہور ہو گا۔

تو آئیے، یکم ذوالحجہ کو فقط ایک تاریخ نہ سمجھیں، بلکہ ایک مشعلِ راہ مانیں، اور اپنے گھروں میں علی و فاطمہؑ کی سیرت کو زندہ کریں

تحریر: رضوان نقوی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *