گریٹر خواب کی شکست

Greater Dream

از قلم: عون عباس

thaheem1412@gmail.com

نئی دہلی کی رات بھی عجیب تھی جیسے ستاروں نے آنکھیں پھیر لی ہوں، جیسے خاموشی بھی کسی طوفان سے پہلے کی ویرانی ہو۔ لیکن راشٹریہ بھون کے اندر، اس پرشکوہ عمارت میں جہاں طاقت کی سانسیں بھرتی ہیں، ایک الگ ہی موسم تھا۔ وہاں ہوا میں ہتھیاروں کا غرور، فتح کی پرچھائیاں اور شکست خوردہ انسانیت کی دبی ہوئی کراہیں تیر رہی تھیں۔
ایک وسیع کانفرنس ہال، سنہری جھاڑ فانوس کی روشنی میں نہایا ہوا، جہاں دیواروں پر عظیم ہندو راجاؤں کی پینٹنگز آویزاں تھیں۔ سب کی تلواریں بلند، آنکھیں دہکتی ہوئی۔ ان کے نیچے، ایک بڑا نقشہ: ایسا بھارت جو موجودہ سرحدوں میں قید نہیں بلکہ افغانستان سے برما، تبت سے سری لنکا تک پھیلا ہوا، جس کے بیچ میں پاکستان کو سرخ دائرے میں لپیٹ دیا گیا تھا جیسے کسی ہدف کو شکار سے پہلے نشان زد کیا جاتا ہے۔
نریندر مودی، اس ہال کے وسط میں پڑی اونچی کرسی پر براجمان تھا جیسے وہ کسی سلطنت کا خود ساختہ راجہ ہو۔ اُس کی آنکھوں میں اسلام کے خلاف نفرت کی چمک، اور لبوں پر زہریلی مسکراہٹ۔ اُس کے پیچھے دیوار پر ایک پرچم تھا ترنگا نہیں، بلکہ زعفرانی جھنڈا جس پر تلوار اور ‘اکھنڈ بھارت’ کا سنہرا نقش۔
“ہم نے برسوں چالیں چلیں!” اُس کی آواز کمرے میں گونجی، “بابری کو گرایا، گجرات کو جلایا، کشمیر کو بندوق کی نال میں قید کیا۔ مگر یہ پاکستان… یہ مسلم قلعہ… یہ اب بھی سینہ تان کر کھڑا ہے!”

جرنیل، بیوروکریٹس، خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ، سب گونگے بت بنے بیٹھے تھے جیسے ایک ایسی سلطنت کے کٹ پتلی جو صرف ایک آواز سے ہلتی ہو۔
“ہماری معیشت، ہماری فوج، ہمارا نیوکلیئر آرسنل، ہماری رافیلز… سب تیار ہیں!” مودی کی آواز میں بجلی کی گونج تھی، “اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں: یہ نیا بھارت ہے! یہ حملے چھپا کر نہیں کرتا… اب حملہ کھلا ہو گا! اب ہماری ‘گودی میڈیا’ نہیں، ہمارے میزائل بولیں گے!”
وہ اٹھا، آہستہ آہستہ نقشے کے قریب گیا۔ انگلی پاکستان کے نقشے پر جمائی جیسے کوئی تاجر مال پر مہر لگاتا ہے، یا جیسے کوئی قصائی گوشت پر چھری رکھنے سے پہلے ہدف دیکھتا ہے۔
“یہ سرزمین، یہ پاکستان… ہمارے خوابوں کی راہ میں آخری رکاوٹ ہے۔ اب اسے مٹانا ہو گا!”
باہر رات کے آسمان میں خاموشی تھی، مگر اُس ہال میں نفرت کی آندھی چل رہی تھی۔ پس منظر میں ایک بھجن بج رہا تھا، جس میں ’وشو گرو بھارت‘ کے نعرے تھے، اور مودی کی آنکھوں میں وہی آگ دہک رہی تھی جو بابل کی اینٹوں سے لے کر کربلا کی خاک تک، ظلم کا ایندھن رہی ہے۔
اُس نے کمانڈروں کو دیکھا، اور آخری الفاظ ادا کیے:
“یہ حکم ہے… اب ہم پردے نہیں رکھیں گے۔ اب پاکستان کو پتہ چلے گا کہ بھارت کب جاگتا ہے اور جب جاگتا ہے تو صرف بولتا نہیں… جلاتا ہے!”
روشنی مدھم ہونے لگی۔ نقشے پر لال دائرہ جلنے لگا جیسے جنگ کی آگ بھڑک اٹھی ہو۔
اور ادھر اب کمرہ اب خالی ہو چکا تھا، مگر راشٹریہ بھون کی دیواریں اب بھی مودی کے الفاظ کی بازگشت سے لرز رہی تھیں۔ نقشے پر جلتا لال دائرہ بجھ چکا تھا، لیکن اُس کے پیچھے جلنے والا ارادہ ابھی سلگ رہا تھا انتقام، اقتدار، اور ایک تاریخی حسد جس نے ہندوتوا کے پجاریوں کو مدتوں سے بے چین کر رکھا تھا۔
مودی اپنے ذاتی کمرے میں تنہا بیٹھا تھا۔ اُس کے سامنے میز پر تین فائلیں کھلی تھیں:

آپریشن پشپک
پاکستان کو محدود پیمانے پر میزائل حملوں کے ذریعے اشتعال دلانا
‘وِدیشی مورچہ’  بین الاقوامی میڈیا اور عالمی  دنیا میں پاکستان کو “خطرناک ریاست” کے طور پر پیش کرنا
‘ساکھ شکن یوجنا’ پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست، ایک غیر مہذب اور غیر ذمہ دار نیوکلیئر ریاست ثابت کرنا اور بھارت کی طاقت
مودی کی نظریں فائلوں پر تھیں، لیکن اُس کے ذہن میں ایک اور کھیل چل رہا تھا۔ اُس کے ذہن میں وہ پرانی تقریریں گونج رہی تھیں، جن میں وہ ’نیا بھارت‘، ’اکھنڈ بھارت‘ اور ’وشو گرو‘ کی باتیں کرتا تھا۔ اب وقت آ چکا تھا کہ وہ خواب خون میں نہا کر حاصل کیے جائیں۔
اس نے ایک خفیہ بٹن دبایا۔ ایک دیوار ہٹی، اور ایک چھوٹا سا ہائی ٹیک وار روم ظاہر ہوا دیواروں پر ریئل ٹائم سیٹلائٹ مانیٹرز، دشمن ملک کی سرحدوں کی تھرمل امیجز، اور لائیو کمانڈ چینلز کھلے تھے۔
“جنرل سدھیر!” اُس نے کال ملائی۔
“یس سر!”
“اب فیز ون لانچ کرو۔ پاکستان کی تین اہم لوکیشنز پر رات کی تاریکی میں میزائل حملہ کرو محدود، لیکن دکھاوے کے لیے مہلک۔”
“سر! جوابی کارروائی کا امکان؟”
مودی کے چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔ “ہم چاہتے ہی یہ ہیں، جنرل! وہ ردِعمل دیں… ہم ان کو ایٹمی دیوانہ ثابت کریں گے۔ اور جب وہ تنہا رہ جائیں گے، تب ہم اُن کے خوابوں کو مٹی میں دفن کریں گے!”

رات کے تیسرے پہر کا عالم تھا۔ دنیا سوتی رہی، مگر جنوبی ایشیا کے آسمان پر ایک آتشین تحریر لکھی جانے والی تھی۔ بھارتی سرحد کے اندر سے تین بیلسٹک میزائل، خاموشی سے فضا میں بلند ہوئے۔ نہ کوئی انتباہ، نہ کوئی اعلان صرف زہریلی خاموشی میں لپٹا ہوا موت کا پیغام۔
اسلام آباد، لاہور اور سیالکوٹ کے قریبی علاقوں میں اچانک زمین لرز اٹھی۔ کہیں کوئی اہم فوجی پوسٹ نشانہ بنی، کہیں رن وے تباہ کیا گیا، کہیں شہری علاقوں سے ذرا ہٹ کر میزائل گرا ایک نپی تلی، خبردار کرنے والی وحشت۔
پاکستانی ریڈارز نے حملے کا پتہ چلایا مگر تب تک زخم لگ چکے تھے۔ ایمرجنسی وارننگز، انٹیلیجنس چینلز، ایئر ڈیفنس کمانڈز سب متحرک ہو چکی تھیں۔ مگر ایک لمحے کے لیے… صرف ایک لمحہ… خاموشی چھا گئی جیسے پوری قوم نے سانس روک لی ہو۔

مودی نے کھڑکی سے آسمان کی طرف دیکھا۔ دلی کی فضاؤں میں کوئی ہلچل نہ تھی، مگر اُس کے ذہن میں ایٹمی دھماکوں کی گونج تھی۔ وہ جانتا تھا، وہ کھیل کھیل چکا ہے۔ اب شطرنج کی بساط پاکستان کے کورٹ میں تھی۔
اُسے یقین تھا پاکستان ردِعمل دے گا۔
اور جب دے گا، دنیا اُسے معاف نہیں کرے گی۔
اور یہی مودی کی گہری چال تھی۔
مگر پاکستان نے پلک نہ جھپکی۔
نہ بے سمتی میں کوئی فائر، نہ جذباتی فیصلہ۔
بلکہ ٹھوس، حساب شدہ، اور بین الاقوامی ذہانت سے مزین وہ قدم اُٹھایا گیا جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا گیا۔
چینی ISR نیٹ ورک (Intelligence, Surveillance, Reconnaissance)،
بیجنگ کا خلائی دفاعی ڈیٹا،
اور پاکستان کے جدید ترین ریڈار و الیکٹرانک وار فیئر سسٹمز
سب متحرک ہو چکے تھے۔
بھارتی میزائلوں کو راستے میں ہی تباہ کر دیا گیا۔
کچھ میزائل فضا ہی میں پھٹ گئے، کچھ جھوٹے اہداف پر گرائے گئے،
اور کچھ کو “سائبر اسپوفنگ” کے ذریعے واپس گھما کر راجھستان کی حدود میں لے جایا گیا۔
اب باری تھی جواب کی۔ مگر یہ جواب صرف ہتھیاروں کا نہیں تھا، یہ جواب تھا ذہانت، حکمت، اور برتری کا۔
پاک فضائیہ کی F-16 اسکواڈرن، جے ایف 17 تھنڈر، اور چینی ڈرونز سب ایک مربوط خاموشی سے آسمان پر نمودار ہوئے۔ کوئی بے ترتیبی نہیں، کوئی دکھاوا نہیں بس حدف، پیمائش، اور نتائج۔

1. رافیل طیارے، جن کا افسانہ برسوں سے بھارتی میڈیا سناتا آیا تھا، ریڈار سے پہلے ہی ڈراپ کر دیے گئے۔

2. INS وکرانت بھارتی نیوی کا نیا فخر سونار میں الجھ کر سمندر کی خاموشی میں گم ہو گیا۔

3. بھارتی فضائیہ کی نفسیاتی برتری  جو کبھی ناقابلِ تسخیر کہلائی جاتی تھی  اب صرف ایک افسانہ رہ گئی۔

نہ صرف بھارتی حملہ ناکام ہوا، بلکہ بھارت نے اپنی برتری کا آخری ہتھیار بھی گنوا دیا۔
مودی کا غرور چکنا چور ہو چکا تھا۔
راشٹریہ بھون میں وہ تنہا کھڑا تھا۔
چہرے پر وہ زہریلی مسکراہٹ ماند پڑ چکی تھی،
اور ہاتھوں میں صرف شکستہ نقشے تھے۔
ایک آمر، جس نے یہ سمجھا تھا کہ “پاکستان صرف ایک ردعمل دینے والا ملک ہے”، اب خود ردعمل مانگ رہا تھا۔
مودی نے تیزی سے ایک سیٹلائٹ فون اٹھایا،
”ٹرمپ جی… نمستے… ہمیں تھوڑی مدد کی ضرورت ہے… بات بگڑ گئی ہے… پاکستان سنبھل گیا ہے… بلکہ آگے نکل چکا ہے…”

ٹرمپ نے پہلے خاموشی اختیار کی، پھر کہا:
“نریندر، میں نے کہا تھا اگر تم ببر شیر کو چھیڑو گے تو وہ دھاڑے گا، تمہیں چیرے گا۔”
عرب دنیا خاموش تھی، مگر اُن کی نظریں بدل چکی تھیں۔
اب مودی، وہ شخص جو دبئی میں گلابوں سے استقبال چاہتا تھا،
اسے سرحدوں سے اٹھتے دھوئیں میں اپنا چہرہ دھندلا محسوس ہونے لگا۔
دنیا نے دیکھا:

1. پاکستان نے جنگ کو ٹالا، مگر عزت سے۔

2. پاکستان نے میزائل روکے، مگر عظمت کے ساتھ۔

3. اور پاکستان نے وہ سب کچھ نہیں کیا، جو ایک جذباتی، غیر ذمہ دار ریاست کرتی ہے اور یہی اُس کی سب سے بڑی جیت تھی۔
پاکستان کی تاریخ سے ملاقات ہو چکی تھی۔
وہ لمحہ، جہاں قیادت نے جذبات نہیں، عقل سے فیصلہ کیا۔
وہ لمحہ، جہاں دشمن کے وار کو وقار سے رد کیا گیا۔
اور وہ لمحہ، جہاں دنیا نے تسلیم کیا کہ:
پاکستان جنوبی ایشیا کا نیا مرکزِ توازن ہے
نہ صرف واہگہ یا خیبر کا دروازہ،
بلکہ قراقرم سے بحر ہند تک پھیلی سٹریٹیجک ریڑھ کی ہڈی۔
اور اب طاقت کا توازن بھی بدل چکا تھا۔
وہ “اکھنڈ بھارت” کا خواب جو فریب، جھوٹے غرور، اور عسکری تکبر کی بنیاد پر استوار کیا گیا تھا
اب راکھ، مایوسی، اور حقیقت میں تحلیل ہو چکا تھا۔
مودی کی آنکھوں سے وہ چمک غائب ہو چکی تھی،
جو اسے گریٹر انڈیا کے نقشوں میں دکھائی دیتی تھی۔
اب وہ خواب صرف نقشوں کے کونے میں سمٹا ہوا ایک پرانا خیال تھا
اور ایک نئے نقشے نے جنم لیا تھا:
ایک ایسا نقشہ جس میں پاکستان کو محض ردِعمل کا ملک نہیں، بلکہ فیصلہ ساز طاقت تسلیم کیا گیا۔
دنیا اب چپ نہیں رہ سکتی تھی۔
واشنگٹن، بیجنگ، ماسکو، انقرہ، ریاض
سب نے اپنی فائلیں دوبارہ کھولیں،
کیونکہ اب صفحہ بدل چکا تھا۔
پاکستان وہ ملک جسے برسوں ناکام ریاست کہا گیا
اب ایک نیم طاقت (regional power) کے طور پر ابھرا تھا،
جس کے پاس صرف اسلحہ نہیں، فہم، برداشت، اور وقت پر وار کرنے کا شعور بھی تھا۔
پاکستانی فضائیہ کے وقار، درستگی، اور اعتماد نے دنیا کو نئی زبان سکھا دی تھی کہ:
یہ وہ قوم ہے،
جو خالی نعرے نہیں لگاتی،
بلکہ مورچے پہ وقار سے کھڑی رہتی ہے۔
یہ وہ قوم ہے،
جو اشتعال میں نہیں، حکمت میں بولتی ہے۔
یہ وہ قوم ہے،
جو جنگ ٹال سکتی ہے،
مگر اگر تھوپی جائے تو دنیا کی زبان بدل دیتی ہے۔
اب بھارت کے عوام پر لازم ہو گیا تھا کہ وہ اپنے میڈیا سے نہیں، اپنی آنکھوں سے سچ دیکھیں۔
وہ سچ، جو یہ کہتا تھا کہ:
پاکستان اب وہ پاکستان نہیں رہا، جسے کمزور سمجھا جا سکے۔
پاکستان وہ نہیں رہا، جسے میز پر بٹھائے بغیر فیصلے کیے جا سکیں۔
پاکستان اب جنوبی ایشیا کے توازن کی بنیاد بن چکا تھا.
اب وقت تھا: غرور سے نہیں، وقار سے جینے کا۔
جنگ سے نہیں، احترام سے بات کرنے کا۔
کیونکہ اگر جنگ نے کچھ سکھایا ہے،
تو وہ یہی ہے:
امن کے بغیر کوئی برتری دیرپا نہیں۔
پاکستان نے لکیر کھینچ دی تھی نہ صرف جغرافیے میں، بلکہ تاریخ میں۔
اور اب جو بھی اس لکیر کے پار دیکھنا چاہتا تھا،
اسے وقار، فہم، اور برابری کی آنکھ سے دیکھنا تھا۔
یہ کہانی ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک نیا باب کھلا تھا۔
جہاں پاکستان محض ایک ملک نہیں،
بلکہ ایک نظریہ، ایک وقار، اور ایک یاد دہانی کہ طور پہ دوبارہ ابھرا —
کہ کبھی مٹی کو کمزور نہ سمجھو،
جب وہ اپنے اوپر چلنے والے قدموں کی چاپ سن چکی ہو۔

One thought on “گریٹر خواب کی شکست

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *