ریاض: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں شام کے عبوری صدر احمد الشرع سے ایک اہم ملاقات کی، جس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور ویڈیو لنک کے ذریعے ترک صدر طیب اردوان بھی شریک تھے۔
اس ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے شامی صدر پر زور دیا کہ وہ دیگر عرب ممالک کی طرح اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے “ابراہیم معاہدوں” میں شامل ہوں۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ شام فلسطینی عسکریت پسندوں اور غیر ملکی جنگجوؤں کو ملک بدر کرے، نیز کرد ملیشیا کے زیر کنٹرول داعش قیدی کیمپوں کی ذمہ داری سنبھالے، جن پر ترکیہ کو اعتراض ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، یہ ملاقات صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے چار روزہ دورے کا حصہ تھی، جس میں وہ متحدہ عرب امارات اور قطر بھی جا رہے ہیں، لیکن اسرائیل کا دورہ اس پروگرام میں شامل نہیں۔ گزشتہ روز ہی امریکا نے شام پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، جسے سعودی عرب اور ترکیہ سمیت بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔ تاہم، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ سے ملاقات میں شام پر پابندیاں اٹھانے کی مخالفت کی تھی۔
ذرائع کے مطابق، متحدہ عرب امارات اسرائیل اور شام کے درمیان سفارتی رابطے کا کردار ادا کر رہا ہے، جس کی تصدیق شامی صدر الشرع نے بھی کی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے الشرع کو “نوجوان، پرکشش اور مضبوط قائد” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ماضی طاقتور ہے اور وہ ایک جنگجو رہنما ہیں۔ واضح رہے کہ الشرع ماضی میں القاعدہ سے منسلک رہ چکے ہیں، اور امریکا نے کبھی ان کے سر پر 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔
شامی وزارت خارجہ نے پابندیاں اٹھانے کے اعلان کو “تاریخی قدم” قرار دیا، لیکن ابراہیم معاہدوں اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر کوئی واضح ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ یاد رہے کہ شام میں باغی گروہوں کے طویل جدوجہد کے بعد بشار الاسد کا اقتدار ختم ہوا اور احمد الشرع عبوری صدر بن گئے۔