عالمی بینک نے ترقی پذیر ممالک میں جوہری توانائی کے منصوبوں کی مالی معاونت پر لگائی گئی طویل مدتی پابندی ختم کر دی ہے۔ بینک کے صدر اجے بانگا کے مطابق، یہ اقدام بڑھتی ہوئی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے اور پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، بینک کے صدر نے اپنے عملے کو بھیجے گئے ایک ای میل میں بتایا کہ منگل کو ہونے والی بورڈ میٹنگ کے بعد نئی توانائی پالیسی کو منظوری دے دی گئی ہے۔ تاہم، اپ اسٹریم نیچرل گیس کے منصوبوں کی فنڈنگ پر ابھی مکمل اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔

پچھلی پابندیاں اور نئی پالیسی
- عالمی بینک، جو ترقی پذیر ممالک کو سستے قرضے فراہم کرتا ہے، نے 2013 میں جوہری توانائی کے منصوبوں کی مالی معاونت بند کر دی تھی۔
- 2017 میں، بینک نے 2019 سے تیل اور گیس کے اپ اسٹریم منصوبوں میں سرمایہ کاری روکنے کا اعلان کیا تھا، تاہم غریب ترین ممالک کے لیے کچھ گیس پراجیکٹس پر استثنیٰ دیا گیا تھا۔
بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب
اجے بانگا کے مطابق، ترقی پذیر ممالک میں 2035 تک بجلی کی مانگ دگنی ہو جائے گی، جس کے لیے موجودہ سالانہ سرمایہ کاری (280 ارب ڈالر) کو بھی دوگنا کرنا ہوگا۔
بورڈ میں اختلافات
ذرائع کے مطابق، جوہری توانائی کی فنڈنگ پر تو اتفاق رائے آسانی سے ہو گیا، لیکن جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے گیس کے منصوبوں کے حوالے سے محتاط رویہ اپنایا ہے۔
جوہری سلامتی اور تعاون
عالمی بینک نے جوہری سلامتی، عدم پھیلاؤ اور ریگولیٹری فریم ورک کے لیے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ قریبی تعاون کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ، بینک موجودہ جوہری ری ایکٹرز کی عملی زندگی بڑھانے، گرڈ اپ گریڈیشن، اور چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹرز (SMRs) کی ترقی پر بھی کام کرے گا۔